Home | Urdu | Kalam e Irfan
To Read online click on the Title Page
Hyderabad, Dakhan ki sarzameen aese ka’i muqaddas aastaanon ka gehwaara hai jin mein aaraam farma nufoos-e-qudsiya apne apne daur mein maidaan-e-shariat ke Shehsawaar aur aasmaan-e-tareeqat ke Shehbaaz reh chuke hain. Unhi Allah Waalon mein se ek Hazrat Syed Mohammad Badshah Mohiuddin Wajoodi Quadri wa Chisti [Alaihi Rahma wal Rizwaan] ki zaat-e-majmu’u-sifaat bhi hai jo ek Sufi baasafa Aarif Billah hone ke saath saath Tafseer, Hadith, Fiqha, Mantiq etc. uloom-e-zaahiri ke maahir, baland paaya Adeeb-wo-Sukhanwar aur dariya e Maarefat wo Haqeeqat ke shanaawar hain. Jinhone nai ek nazar e faiz e asr ke zariye kitne saalikon ke dilon ki dunya badal daali aur khuda rasi ki a’ala manzil se unhein humkinaar kar diya.
حضرت وجودی شاہ صاحب علیہ الرحمہ میں سادات کا حلم عجز و انکساری ہونے کے ساتھ ساتھ آپؒ کی ذاتِ گرامی کثیر کشف و کرامات کی حامل رہی جن کا تذکرہ بسا اوقات میرے مرشد قبلہ حضرت خالد علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے۔ کیوں نہ ہو آپؒ کا سلسلہ نسبی حضرت سیدنا امام حُسین علیہ السلام سے اکتیس(31)ویں واسطوں سے جا ملتا ہے اورسلسلہ نسب خانوادۂ اہل بیتِ رسول ؑ سے ہے۔ خود آپؒ فرماتے ہیں
نہ چھوڑ صبر کا دامن وجودیؔ کہ تم اولادِ شہید کربلا ہو
وجودیؔ مرتبہ مرا کوئی جانے تو کیا جانے کہ سب کونین ہے محتاج مرے جدِّ امجد کا
آپؒ وجودی شاہ صاحب ؒ کے نام سے معروف اور وجودیؔ تخلص فرمایا کرتے تھے آپؒ کا کلام جو ’’سخنستان وجودیؔ ‘‘ کے نام سے موسوم ہے‘ ایک عاشق صادق عارف باللہ صوفی و فقیر‘ قرب اِلٰہی کے اعلٰی مقام پر فائز‘ عقل و فہم سے بالاتر ایسے ولی اللہ کی تخلیق ہے جس کی گواہی ایک ایک شعر بلکہ ہر حرف دے رہا ہے ۔
آپؒ کے کلام میں عشق کی وارفتگی اور مئے الست کا کیف علمی و ادبی چاشنی ‘ نکتہ سنجی اس درجہ پائی جاتی ہے کہ قارئین و سامعین کے مشام جاں کو معطر اور روح کو معنبر کردیتی ہے۔ اکثر اشعار رموزِ فنائیت و بقایت کی گتھیاں سلجھاتے ہیں جس کو عام آدمی فہم میں لانا بھی مشکل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ’’سخنستان وجودیؔ ‘‘ کو جدید ترتیب کے ساتھ ساتھ اُن مشکل اور ذومعنیٰ الفاظ و مہاوروں کے لفظی معنیٰ اور مرادی معنی کی تشریح زیر نظر صفحات کے حاشیہ میں درج کردی گئی تاکہ اصل مفہوم کے سمجھنے میں سہولت ہو ‘امید کہ قارئین پسند فرمائیں گے۔گو کہ یہ کام ایک ہمت و جسارت تصور کیا جاسکتا ہے تاہم پر خلوص عجز و افتقار کے ساتھ عمل میں آیا ہے۔
Main, Syed Mohiudin Mir Lateefullah Shah Quadri Khalidi, apne peer o murshid Hazrat Qibla Khwaja Abul Faiz Shah Mohammad Khalid Wajoodi, Quadri Al-Chisti [Alaih Rahmah] ke hukm ki ta’meel mein dada peer Hazrat Wajoodi Shah Alaih Rahmah ke She’ri majmoo’a “Sukhnistan e Wajoodi” ka 2nd edition, Lateef Academy aind publishar ke zeeriye shaae’ kiya. Moulaana Qaazi Syed Shah Aazam Ali Sufi Quadri, Sadr Kul Hind Jamee’atul Mashaaekh se “Sukhnistan e Wajoodi” par apne taasuraat izhaar karne ki khaahish ki jis par Moulana ne hazb e zail taasuraat tahreer farmaya:
’’ سخنستان وجودی ‘‘پر طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت وجودی شاہؒ استاذ سخن کے پایہ کے ایک کہنہ مشق باصلاحیت شاعر تھے جنہیں فارسی اور اردو زبان وادب پر کامل عبور حاصل تھا۔ آپ نے تقریباً سب ہی اصناف سخن میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔ زیر نظر مجموعہ کلام کو (بابـ ۱)حمد باری تعالیٰ،(بابـ ۲) نعت شریف، (بابـ۳)منقبت، (بابـ ۴)عرفانیات، (بابـ ۵)غزلیات اور(بابـ ۶) رباعیات کے زیر عنوان چھ ابواب پر تقسیم کا گیا ہے جو (۱۳۱) منظومات اور (۵۴) رباعیات پر مشتمل ہیں۔ تیسرے باب میں ایک مسدس اور ایک مستزادبھی شامل ہیں۔ یوں تو سارا کلام بزبان اردو ہے لیکن حضرت علی شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ کی شان میں ایک منقبت اور ایک نعتیہ غزل یہ دو کلام فارسی ہیں۔ آپؒ کی پُر گوئی کا یہ عالم ہے کہ کیفیت طاری ہوجائے تو اشعار کی آمد کا ایک سیلِ رواں ہے کہ رکنے کا نا نہیں لیتا۔ چنانچہ ایک عرفانی غزل میں تو اشعار کی تعداد (۴۱) تک جاپہنچی ہے۔
حضرت وجودی شاہؒ کو زبان وبیان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ فنی پختگی، طرزادا کی شفتگی، اظہار میں بے ساختگی لب و لہجہ کی اثر آفرینی اور تشبہات اور استعارات کی بو قلمونی نے کلام کو دل آویزی عطا کی ہے۔ شاعر کی تلفیظ کا دائرہ بہت وسیع ہے جنکی ترکیبیں متنوع اور منفرد ہیں۔ الفاظ کو مناسب جگہ صرف کرنے کا سلیقہ اشعار میں موجود ہے۔ الفاظ کی دروبست اور انکی تراش و خراش قابلِ دید ہے۔ اکثر مترنم اور نغمہ ریزی بحروں کا انتخاب کیا گیا جن میں ایک دلکش موسیقیت پائی جاتی ہے اسی لئے محافل سماع کیلئے نہایت موزوں کلام ہے۔ دلوں کو چھولینے والے آپ کے اشعار سامعین کو بار بار سننے اور قارئین کو بار بار پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔وجودی شاہ صاحبؒ نے اپنی شاعری میں قدیم روایات کی بھر پور پاسداری کی ہے۔ اور اپنے کلام کو استاذۂ سخن کے بہترین رنگوں کی ایک خوبصورت قوس قزح بنادیاہے۔ خصوصا مرزا غالبؔ کی تقلید کو اکثر اپنے لئے موجب افتخار سمجھتے ہوئے وہی لب و لہجہ اور رنگ و آہنگ اختیار کیا ہے۔ بلکہ متعدد غزلیات غالب ہی کی زمینوں میں لکھی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی ایک غزل میں غالبؔ کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہوئے اپنے مقطع میں فرماتے ہیں۔
اے وجودی اپنا استادِ سخن جانتا ہوں غالبِ مغفور کو
جہاں تک معرفت حق میں راہِ سلوک کا سوال ہے حضرت وجودی شاہؒ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں جو ایک ایسی تصوف کی اصطلاح ہے کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ کے وقت سے صوفیہ کرام میں زبان زد خاص و عام ہے۔ علم تصوف میں تنزیہ و تشبیہ کو اصطلاحاً عینیت و غیریت کہتے ہیں۔ جنکے اعتبارات کی وحدۃ الوجود میں وضاحت ملتی ہے کیونکہ صحیح ایمان ان دونوں نسبتوں کی تصدیق پر منحصر ہے۔ عرفاء کرام کے نزدیک محض غیریت کا قائل محجوب ہے، محض عینیت کا شاغل مغضوب ہے، نشۂ وحدت کا سرشار مجزوب ہے اورد ونوں نسبتوں کا محافظ محبوب ہے جو وجہ عینیت کو غیریت پر اور وجہ غیریت کو عینیت پر غلبہ پانے نہیں دیتا تاکہ رب رب رہے اور بندہ بندہ رہے اور لوگ شریعت سے آزاد نہ ہو جائیں۔ یہی بات حضرت ابن عربیؒ کے اس شعر میں ملتی ہے
العبدُ عبدٌ و ان ترقّی والرب ربٌ و ان تنزل
یعنی بندہ اپنے مولیٰ کا کتنا ہی ہم رنگ اور آئینہ و مظہر کیوں نہ بن جائے پھر بھی وہ بندہ ہی رہتاہے مولیٰ نہیں بن جاتا اسی کی ترجمانی حضرت وجودی شاہؒ اسطرح فرماتے ہیں
عبدو رب میں عینیت بیشک مسلّم ہے مگر اے وجودی بندہ بندہ ہے خدا ہوتانہیں
یہ امر موجب اطمینان ہے کہ اکثر اشعار میں محولہ اصطلاحاتِ تصوف کی مرادی تشریح صفات کے حاشیہ میں درج کردی گئی ہے۔
’’ سخنستان وجودی‘‘ میں مختلف صنائع و بدائع کی متعدد مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلا ملاحظہ ہو
مراعاۃ النظیر۔
منجدھار بھی ہے بادِ حوادث بھی ہے ڈوب جائے نہ کہیں ناؤ میری خذبیدی
دبوند بوند میں جس کے ہیں میکدے ایسی شراب ہے مرے جامِ سفال میں
تلمیحات و ارشارات
لن ترانی بھی صدا ہے میری طالبِ دید سرِ طور ہوں میں
لی مع اللہ کے ارشاد کا معنیٰ میں ہوں مقصدِ اینما کنتم کا معمہ میں ہوں
صنعت طباق یا تضاد میں یہ اشعار دیدنی ہیں
سہل سے سہل بھی مجھکو نہیں آسان لیکن سخت سے سخت بھی مشکل تجھے آساں پیارے
برسنا آنکھ سے پانی بھڑکنا آگ کادل میں قیامت ہے کسی کا جامع الاضداد ہوجانا
وصل حق میں نہیں ملتا نہیں ملتا وہ لطف ہجرِ محبوبِ خدا میں جومزا ملتا ہے
حُسنِ تعلیل : کی اشعارِ ذیل میں ندرت دیکھئے
فقط اتنی خطا تھی چھولیا تھا ان کے دامن کو صبا کرنے لگی برباد میری خاکِ مدن کو
رحمت حق پر جو ہوتا اعتماد شیخ پیتا بادۂ انگور کو
تیرے اوجِ ستم سے پیر گردوں کا ہے سرنیچا قیامت ڈرگئی ہے دیکھ کر تیرے لڑکپن کو
المختصر’’ سخنستان وجودی ‘‘کیا ہے معنوی حیثیت سے معرفت و حقیقت کا ایک خزینہ، عشق رسول ﷺکا مدینہ اور شعرو ادب کا گنجینہ ہے جس کا ایک اک شعر بلکہ ایک اک مصرع عرفانی نگینہ ہے جسے توجہ سے پڑھنے والے کا دل منور، روح مطہر اور مشام ایمان معطر ہوجا ہے۔
کلام سے پہلے تحسین ’’سخنستانِ وجودی ‘‘اور تعارف کے زیر عنوان حضرت وجودی شاہ ؒ اور آپ کے جانشین کے حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے لہذایہاں اسکا تذکرہ تحصیلِ حاصل کے مترادف ہے۔ اسی لئے صرف ادبی نقطہ نظر سےوجودی شاہ صاحب ؒ کے کلام کا جائزہ لیا گیا جو مختصر اور محدود ہے ورنہ اس شعری مجوعہ میں سخن و ادب کے تحت ایک بحرِ بیکراں ٹھاٹھیں ماررہا ہے جس میں غواصی کرنے والے اپنے ہر پھیرے میں معرفت و حقیقت کے نئے نئے آبدار موتی بر آمد کرتے رہینگے۔ ارباب طریقت کیلئے سخنستان وجودی بلا شبہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ حق تعالیٰ حضرت وجودی شاہؒ کے وابستگان سلسلہ کو خصوصاً اس سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
پہلی بار اس کلام کو ۱۳۷۲ھ م ۱۹۵۷ ء میں یعنی آج سے کوئی 58برس پہلے اور وجودی شاہ صاحبؒ کے وصال کے دس(10)سال بعد آپؒ ہی کے مریدِ عزیز جناب میر احمد علی احمدؔ قادری الوجودیؒ نے شائع فرمایا تھا۔ زیر نظر ’’سخنستان وجودی‘‘ کی طباعت و اشاعت کا اہتمام’’ لطیف اکیڈمی‘‘ ٹولی چوکی حیدرآباد کی جانب سے کیا گیا ہے اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ پیر ؒ کے طفیل میں مجھ ناچیز کی اس ادنیٰ سعی کو درجہ قبولیت و مقبولیت عطا فرمائے ۔ آمین
Sukhnistan e Wajoodi ek hi jild mein jumla 6 baab hain, Baab 1-Hamd, Baab 2-Na’at Shareef, Baab 3-Manqabat, Baab 4-Irfaaniyaat, Baab 5-Gazliyaat aur Baab 6-Rubaa’iyaat. Jumla 167 safaat par mabni hai.